جب ہم معاشرے میں تنقیدی نگاہ ڈالٹے ہیں تومایوسی ہوتی ہے ، دنیا جہان کی برائیاں اس میں موجود ہیں اور دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ، کس قدر دکھ اور رنج کی بات ہے کہ اتنا عمدہ اور آعلیٰ صحیفہ قرآن مجید ہمارے پاس موجود ہے کبھی آپ نے اس نقطہ کو سوچا کہ پچھلے نبیوں کو جو معجزات ملے وہ انہوں نے اپنے امت کو نہیں دئیے جبکہ ہمارے نبی حضرت محمدؐ کو جو معجزہ ملا وہ امت کے حوالے کر کے چلے گئے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا امت نے اس سے فائدہ اٹھایا ؟ ماضی میں مسلمانوں کی ایجادات سے دنیا نے فائدہ اٹھایا پھر آہستہ آہستہ ہم لوگ بہت پیچھے چلے گئے ۔ اس وقت ہمارے پاس سارے صحیفے موجود ہیں ، تفاسیر موجود ہیں فلسفیوں ، سائیکالوجسٹ اور سیلف ہیلپ کی کتابیں موجود ہیں مگر معاشرے میں امن نام کی چیز موجود نہیں ہے ۔ ہم فروع دین پر عمل کر رہے ہیں پھر بھی معاشرہ بگڑا ہوا ہے ، مغرب مادی ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے اور ہم حیران و پریشان ہیں ، ہمارے معاشرے میں جو خامیاں ہیں ان کو ہم نے ہی اجاگر کرنا ہے ہماری شخصیت میں جو نقائص ہیں انکو ہم نے ہی درست کرنا ہے ۔ یونیسکو کی 2003 کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ

کے مطابق یورپین سالانہ 35 کتابیں پڑھتے ہیں ،یہودی سالانہ 41 کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور مسلمان سالانہ ایک کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ عرب تھوٹ فاؤنڈیشن کلچرل ڈویلپمنٹ رپورٹ

کے مطابق یورپین سالانہ 200 گھنٹے مطالعہ کرتے ہیں جبکہ عربی اور مسلمان سالانہ 6 گھنٹے مطالعہ پر صرف کرتے ہیں ۔

جب ہم دینیات کے نصاب پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ نہ ہی ہماری شخصیت بنا رہا ہے اور نہ ہی ہمیں اخلاق سکھا رہا ہے ۔ اقبال نے 1930 میں آئڈیا آف ریکنسٹرکشن آف ریلیجیس تھوٹس ان اسلام ٰ

"Idea of the reconstruction of the religious thoughts in Islam"

دیا تھا کیا ہم نے کبھی سوچا کہ وہ ہمیں کیا کہہ کر چلا گیا ہے ، ہم سوچنے پپر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخراس مسئلے کی کوئی تو بنیادی وجہ ہے اور پھر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ انسان نے ابھی اپنے آپ کو نہیں پہچانا ۔ اس سلسلے میں ہم نے چھوٹے چھوٹے لیکچرز تیار کئے ہیں تاکہ آپ کو بھی آگاہی ملے سب سے پہلے ہم قرآن کی ایک آیت اور رسول کی ایک حدیث کو لیتے ہیں سورۃ روم آیت نمبر8 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ کیا وہ اپنے نفسوں میں تفکر نہیں کرتے حدیث ہے"من عرفہ نفس فقط عرفہ رب ہو".

1400 سال سے یہ دونوں یعنی آیت اور حدیث ہمارے پاس ہیں آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں کسی فرد نے اس آیت پر تبصرہ نہیں کیا ہے ۔ آئیں ذرا تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں نو دائے سیلف (اپنے آپ کو پہچانئے ) بار بار دہرایا گیا ہے مگر روایت میں یہ قدیم یونان سے منسوب ہے پوسانیاس جو کہ دوسری صدی عیسویں میں یونان کا ایک سیاہ اور جغرافیہ دان تھا ۔ اسکے بقول یہ کہاوت نو دائی سیلف یعنی اپنے نفس کو پہچانو ، یونان میں ڈیلفی کے مقام پر ایک عبادت گاہ جو کہ ٹیمپل آف اپولوکے نام سے مشہور ہے اسکے صدر دروازے کی مہراب پر تراشی ہوئی پائی گئی ۔ یہ کہاوت اوریکل آف ڈیلفی کے نام سے پہچانی جاتی ہے (پوشیدہ معنی رکھنے والی یا راہنمائی کی اہلیت رکھنےبوالی )۔ جیسے جیسے یونانی فلسفہ پھیلا آگے چل کر یہ کہاوت مغربی فلاسفرز کا ٹچ سٹون یعنی معیار بن گیا ۔

اپنے نفس کا علم سب کچھ اپنے اندر سمولیتا ہے تجربے کی ایک سطح پہ سیکھی ہوئی بات کا اطلاق دوسری سطحوں پر بھی کیا جا سکتا ہے یہ علم کی اعلیٰ ترین شکل جو کسی بھی دوسرے علم سے افضل ہے ، معرفت نفس وقت کی قید سے آزاد ہے یعنی کسی ایک دور میں اس سے اٹھائے جانے والے فائدے سے آئندہ آنے والی نسلیں بھی استفادہ حاصل کر سکتی ہیں ۔ علم نفس کی یہ آفاقی جستجو یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ کسی بھی دور کے انسان میں اس کی لگن کسی دوسرے ادارے سے کم یا زیادہ نہیں تھی ۔ بہت سے فلاسفروں نے اس دانشمندی کا اظہار کیا جن میں تھیلس

(Thales of Miletus)کو نمایاں اعزاز حاصل ہے ۔ ان کے مطابق " دنیا میں سب سے مشکل چیز اپنی ذات کی نشاندہی ہے" .

"The Most difficult thing in your life is to know yourself (Thales 624 BC-546 BC)"

بعد میں سقراط اور افلاطون نے اس پر اسرار نوعیت کے علم کو مضبوطی سے تھاما ۔ پلاٹو افلاطون کے مطابق علم کا جوہر اپنی ذات کا علم ہے ۔

"The essence of knowledge is self-knowledge (Plato 428 BC -348BC)"

جہاں تک ہم تحقیق کر بائے ہیں یہ صدا کہ اپنے آپ کو پہچانو مشرق میں بھی سنائی دیتی ہے جو کہ یونان کے اثر سے بالکل جدا گانہ ہے ۔ ہندوؤں کے صحیفوں میں یہ بات تحریر شدہ ہے جس میں نفس کو نمایاں کیا گیا ہے اور اس بات کا آحساس دلوایا گیا ہے کہ معرفت نفس کے ذریعے انسان حیات جادوانی پائے گا ۔ ہندو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو نفس کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ایک دلیرانہ مہم جوئی کا کام ہے

اس سے بھی زیاہ مشرق میں سامراجی چین(Imperial China)کے مشہور ٹاؤ ٹی چنگ (Tao Te Ching)جو کہ چائنیز کلاسک ریلیجیس ٹیکسٹ (Chinese Classic Religious Text)اور چھٹی صدی قبل از مسیح (6th century BC)کےلاؤٹی زی یوLAO-TZUسے منسوب ہے اس میں تحریر ہے ۔ دوسروں کو جاننا ذہانت ہے جبکہ خود کو جاننا یا پہچاننا اصل عقلمندی ہے, دوسروں پر عبور حاصل کرنا طاقت ہے اور خود اپنی ذات پر عبور حاصل کرنا اصل طاقت ہے

Knowing others is intelligence, knowing yourself is true wisdom, mastering others is strength, mastery yourself is true power.

دو لفظوں کا یہ حکم زمانہ قدیم سے تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے ۔ ایک رنگ برنگے لباس میں پروئے سنہرے دھاگے کی طرح اپنے آپ کو پہچانو کی نصیحت مختلف قوموں اور ثقافتوں مذہبی اور دنیاوی روایتوں میں خود کو بنتی ہوئی اور سائنسی اور روحانی تعلیمات کے ادب اور آرٹ میں نمایاں ہے اس قدیم قول کا اعلان ہمیں ہر ذریعہ ابلاغ میں تمام بر اعظموں میں سے ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔

یہ صدا کہ اپنے آپ کو پہچانو ماضی میں عالمگیر رہی ہے اور کسی ایک شخص یا تہذیب سے منسوب نہیں ہے ۔ در حقیقت یہ گہرائی والی ضرب المثل کی ابتداء تینوں تہذ یبوں یعنی یونان ، ہندوستان اور چین سے بہت پہلے مصر میں پائی گئی تھی ۔ بقول افلاطون کے تھیلس این ایگیمینڈر ، فیساغورس اور سولون ،

(Thales Anaximander, Pythagoras, and solon) انہوں نے مصر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ہاروڈوٹس دا گریک فادر آف ہسٹری (Herodotus the Greek father of History)نے 23 سال قدیم مصر کے مدرسوں میں پڑھا ۔ حال میں یہ علم حاصل ہوا ہے کہ مصر میں ہر مندر کے صدر دروازے پر یہ عبارت تھریر تھی مین نو دائے سیلف ، (آدمیوں /لوگوں /انسانوں خود کو پہچانئے (Man Know thy self)

مصر کی تہزیب 3150 سال قبل ازمسیح ہے اور یہاں مدرسوں میں بزرگ علماء حضرات داخلے سے پہلے طالب علموں سے یہ چاہتے تھے کہ وہ جسمانی ذہنی اور روحانی آلودگی سے اپنے آپ کو پاک کریں ۔ اور اس سلسلے میں وہ چاہتے تھے کہ طالب علم اپنا تزکیہ کریں جو کہ روزہ رکھنےاور دعاؤں سے حاصل کرنا ہوتا تھا کہ وہ اپنے نفس کو عاجز بنا سکیں اور اپنی خواہشات کو لگام دے پائیں ۔

بالآخر خود کو پہچانو کی یہ تاریخ ہمارے لئے اس قدر نفع بخش ہے جس قدر ہم سے پہلے آنے والے لوگوں نے یا تو اس سے فائدہ اٹھایا یا اس پوشیدہ خزانے سے کچھ فیض حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔ یا انہوں نے ہمارے لئے ایک بھر پور ادب کی شاندار میراث چھوڑی ہے جس کے ذریعے نفس کی تشکیل و تکمیل کی ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ہے آج کے دور میں پھر سے ہمارے لئے یہ چیلنج ہے کہ ہم معرفت نفس کی کٹھن تحقیق کا بیڑہ اٹھائیں اور اس نفس کو پہچان کر اپنی دنیاوی زندگی اور آخرت کو سنوار سکیں ۔

مزید مضامین کے لئے ہماری ویب سائٹ وزِ ٹ کرئیے۔